Type Here to Get Search Results !

ان شا اللہ 2023ء ہر طرح کی گھٹن سے باہر نکلنے کا سال ہوگا ، تحریک انصاف https://ift.tt/WMcSuJQ

لاہور( این این آئی)وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی سوچ ایک اکائوٹنٹ والی ہے اس ملک کو ایک اکانومسٹ کی ضرورت ہے ، موجودہ حالات میں عالمی اداروں سے بات کرنے کی ضرورت ہے ، ہم نے اپنے دور میں جو کر کے دکھایا وہ ایسا نہیں کہ بٹیراپائوں کے نیچے آ گیا بلکہ ہم نے منصوبہ بندی کی اور اس پر پیشرفت کر کے نتائج حاصل کئے ، ان شا اللہ 2023ء ہر طرح کی گھٹن سے باہر نکلنے کا سال ہوگا ،

موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے بات کرنے میں دیر کی، ان کا ارادہ نہیں تھایا یہ حکومت نہیںکرنا چاہتے تھے۔ان خیالات کا اظہار تحریک انصاف کے فوکل پرسن فوڈ سکیورٹی و خصوصی اقدامات جمشید اقبال چیمہ، سابق وزیر توانائی حماد اظہر، خیبر پختوانخواہ کے وزیر خزانہ تیمو رجھگڑا ، معاشی ماہرین عامر ضیاء ، علی خضر نے وائٹ پیپر جاری کرنے کے حوالے سے منعقدہ سیمینار میں پہلے سیشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ جمشید اقبال چیمہ نے کہا ہے کہ جب ہماری حکومت کو ہٹایا گیا تو اس وقت پاکستان خطے سمیت دنیا کے کئی ممالک میں سستا ترین ملک تھا ۔جب ہماری حکومت گئی تو اس وقت فی کس خوراک پر اخراجات 72ہزار روپے سالانہ تھے جو 31دسمبر 2022ء تک 39فیصد بڑھ گئے ۔یہ حکومت کسان دوست نہیںہے اور اس کی سوچ ہے کہ کسان جاگیردار اور دیہاتی ہے یہ سیاست میں آتا نہیں ہے بلیک میل نہیں کرتا ہے اس لئے اس کی سپورٹ کی ضرورت نہیں ، یہ جلوس نہیں نکال سکتا سڑکیں بلاک نہیں کر سکتا ۔انہوںنے کہا کہ موجودہ حکومت کے دور میں زرعی لوازمات کا استعمال کم ہوا جس کے نتائج پیداوار میںکمی کی صورت میں سامنے آئے ۔انہوںنے کہاکہ کسان کے کردار کو محدود نظر سے نہ دیکھیں ، زراعت کا جی ڈی پی میں19فیصد حصہ ہے ،یہ ملک میں 37فیصد لوگوں کو روزگار دیتا ہے ،26ملین گھرانے اس سے وابستہ ہیں۔آٹو انڈسٹری اورکنسٹرکشن انڈسٹری کے علاوہ تمام انڈسٹریز کے لئے خام مال زراعت سے میسر آتا ہے ۔ غربت کے خاتمے میں زراعت اہم کردار ادا کرتی ہے ۔انہوںنے کہا کہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ ہر سال 48لاکھ لوگوں کی آبادی بڑھ رہی ہے جن کے لئے خوراک کی ضروریات درآمدکر کے پوری نہیں ہو سکتیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے آنے سے پہلے زراعت میں واٹر سکیل کے لئے صرف 10ارب روپے دئیے جاتے ،عمران خان کی حکومت نے 90ارب دیا ، ہم نے کلائمیٹ چینج کو پیش نظر رکھتے ہوئے درخت لگانے کی بڑی مہم شروع کی جس کے نتائج بھی سامنے آئے ۔ انہوں نے کہا کہ 2008میںمڈل کلاس42فیصد تھی اور جب 2018ء میںنواز شریف کی حکومت گئی تو یہ شرح 36فیصد تک پہنچ گئی

جس کا مطلب ہے کہ لوگ مڈل کلاس سے غربت کی لکیر کی طرف بڑھے ۔یہاں زراعت میں پیداواری لاگت بہت زیادہ ہے اس کو کم کرنا ہوگا، اگر ہم کسان کی پیداواری لاگت کم کر دیتے ہیں تو ہم عوام کو خوراک سستی دے سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے امیر ممالک کیلریز 3000سے اوپر ہے ، ہمارے آنے سے پہلے پاکستان میں2400 تھی اور اسے ہم بڑھا کر2735کیلریز پر لے کر گئے ۔

انہوںنے کہا کہ جو چورن آج کل بک رہا ہے کہ ہمارے پاس کوئی پلان نہیں تھا تو کیا ہم نے زراعت میں کامیابیاں تکے سے حاصل کی ہیں ، کیا بٹیرا پائوں کے نیچے آگیا ہے ،ہم نے منصوبہ بندی پر پیشرفت کر کے دکھایا ہے ۔انہوںنے کہا کہ اگر آپ ایک بھی فرد کو پوری خوراک نہیں دے رہے تو آپ ملک پر بوجھ پیدا کر رہے ہیں۔ہمارے دور میں کسانوں کی آمدن میں 2600ارب روپے اضافہ ہوا ۔

73کروڑ غریب ترین لوگ پانچ ممالک میںرہتے ہیں اس میں کبھی ہمارا نام ہوتا تھا لیکن ہماری حکومت نے اس فہرست سے پاکستان کا نام نکالا ۔ یہ کہتے ہیں ہم ان کے لئے معاشی سر نگیں بچھا کر گئے لیکن آپ ایف کی کی ایگزیکٹو رپورٹ پڑھ لیں ہمارے دور میں پاکستان کی معیشت کے حوالے سے سب کچھ واضح لکھا ہے ۔اگر آپ کے پاس عقل نہیں ہے تو خرید لیں ۔ یہ ملک فیصلہ سازوںکے پاس امانت ہے ،

انہوں نے سمت دینی ہے ۔ حماد اظہرنے کہا کہ سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ معیشت بہت بری ہے لیکن جو کہے گا معیشت بری ہے اس پر کارروائی ہو گی ، لیکن آپ ہمیں بات کرنے سے نہیں روک سکتے۔ معیشت حقیقتاً اس وقت خراب حالات میںہے لیکن اس سے بچا جا سکتا ہے ۔ ہمارے دور میں بین الاقوامی اداروںکی جو رپورٹس آرہی تھیں اس کے مطابق پاکستان کی معیشت اور ہینڈلنگ کی تعریف کی جارہی تھی ، کسی بھی رپورٹ کے اندر دور دور تک اندیشہ ظاہر نہیں کیا جارہاہے کہ

فنانشل گیپ آئے گا اور پاکستان ڈیفالٹ کے قریب کھڑا ہو جائے گا،معیشت چھ فیصد پر گروتھ کر رہی تھی ، زر مبادلہ کے ذخائر مستحکم تھے ، ہم نے مارچ میں ریکوڈک کی سیٹلمنٹ کے لئے ایک ارب ڈالر کا اس میں سے بندوبست کیا ، روپیہ مستحکم تھا، خسارہ سکڑ رہا تھا،اضافی بجلی کے استعمال کے لئے سکیم دے رہے تھے ،لارج اسکیل صنعت دس فیصد پر گروتھ کر رہی تھی ،

برآمدات بڑ ھ رہی تھی ۔انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف سے بات کرنے میں دیر کی، ان کا ارادہ نہیں تھایا یہ حکومت نہیںکرنا چاہتے تھے۔ جب پہلا بجٹ پیش کیا گیا تو اس کا ڈرافٹ مزاحیہ تھا جو آئی ایم ایف کی شرائط اور حقیقت سے الگ تھا اور پھر نیا ڈرافٹ پیش کیا گیا اور یکسر نیا بجٹ پیش کر دیا گیا۔ انہوںنے کہا کہ لگژری مصنوعات کے نام پر درآمدات پر پابندی لگا دی گئیں حالانکہ لگژری مصنوعات کی

درآمدات مجموعی درآمدات کا ایک فیصد بھی نہیں ہیں اور حکومت کے اقدامات سے تشویش زیادہ پھیلی۔ اس وقت کے وزیر خزانہ کابیان آتا تھا توپوری مارکیٹ کا اعتماد ختم ہو گیا ، نئے وزیر خزانہ آئے تو انہوںنے کہا کہ میں ڈالر کو 190پر لے کر ائوں گا ، ،ایل سیز روک لی گئیںاور نیا بحران پیدا ہو گیا اورہر شعبے میں خام مال کی قلت پیدا ہو گئی ہے ، پاکستان کی درآمدات کو منجمد کر دیا گیا تاکہ روپیہ مستحکم رہے ، جس سے ادویات سپیئر پارٹس صنعت کا سامان اورخوراک شامل تھے وہ آنا بند ہو گیا اور انڈسٹریز بند ہونا شروع ہو گئی ۔

اس وقت جو انٹر بینک ریٹ ہے اس پر بینک ایل سیز کھولنے کے لئے تیار نہیں ، اوپن مارکیٹ اور انٹر بینک ریٹ میں تیس سے چالیس فیصد کا فرق ہے ، کہیںبھی 226روپے ڈالر پرکوئی کاروبار نہیں ہو رہا ۔ہمارے دور میں 16روپے کا یونٹ تھا ،اضافی بجلی کے استعمال پر 12روپے کا یونٹ کیا گیا، لوڈ شیڈنگ کا نام و نشان نہیں تھا، گردشی قرضہ جو ساڑھے چار سو ارب ہر سال بڑ ھا کرتا تھا

ہم اسے کم کر کے 99ارب روپے پر لائے اور اب وہ پھر ساڑھے 4سو ارب روپے پر چلا گیاہے ۔2013اور2018میں توانائی کے بحران کی بنیاد رکھی گئیں۔کیپسٹی پے منٹ کی فکس ادائیگی 183ارب روپے تھی جو نو سال سال بعد 1100ارب روپے کے قریب پہنچ چکی ہے اور چند سالوںمیں بڑھ کر 2500ارب روپے پر چلی جائے گی ،انہوںنے 70فصد توانائی کی پیداوار امپورٹڈ ایندھن پر کر دی ۔

ہم نے آ کر آئی پی پیز ان سے معاہدوںپر نظر ثانی کی ان سے بات چیت کی اور ایک فارمیٹ بنایا ۔ ریکوڈک کی سییٹلمنٹ کے لئے جو ایک ارب ڈالر درکار تھے اس کے لئے پیٹرولیم ڈویژں نے سرمایہ کاری کی ، ہم نے کمپنیوں سے ادائیگی کرائی اور ہمیں باہر سے قرضہ نہیں لینا پڑا ۔

انہوںنے کہا کہ جب روس نے دنیا کو پیشکش کی تو پاکستان بھی ان چند ممالک میں شامل تھا جس نے روس سے سستا تیل اور گیس لینے کے لئے بات چیت کا آغاز کیا ، ہمیں روس سے 30فیصد سستا تیل ملنا تھا جو ہمیں اپریل میں مل جانا تھا ، انہوں نے اب بات چیت شروع کی ہے لیکن اب بلاول بھٹو نے نے روک دیا ہے کہ کہیں انہیں لانے والے ان کے خلاف ہو جائیں گے۔

انہوں نے کہاکہ بجلی کی قیمتیں تیس سے چالیس فیصد بڑھانے کی بات ہو رہی ہے ، اس سے پاکستان میں مینو فیکچرننگ تباہ ہو جائے گی،عام آدمی تباہ کہیں کا نہیں رہے گا۔اب ضرورت ہے کہ ایک ایسی حکومت آئے جو ریسکیو اور ریکوری کا پلان رائج کرے ۔آج ملک میں نان فنکشنل رجیم ہے ،معیشت کے خراب حالات اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھے ، ان سے فیصلہ سازی نہیں ہو سکی ،

جو حکومت اپنے پائوں پرکھڑی ہی نہیں جسے بیساکھیوںکا سہارا دے کر کھڑا کیا ہو گا وہ کیسے کھڑی ہو سکتی ہے ۔ جنہوںنے مسئلے کھرے کئے ہیں وہ کیسے مسئلے حل کریں گے ۔انہوںنے کہا کہ اسحاق ڈار کی سوچ اکائونٹنگ کی سوچ کی ہے ملک کو اکانومسٹ کی ضرورت ہے ، عالمی اداروں سے بات کرنے کی ضرورت ہے ۔ملک کو مستحکم حکومت چاہیے جوپانچ سال کے لئے آئے اور فیصلے کر سکے ۔ہمیں ڈے ٹو ڈے گورننس اور آرٹیفیشل رجیم سے باہر نکلنا پڑے گا اور ان شا اللہ ہم اس سے نکلیں گے۔

The post ان شا اللہ 2023ء ہر طرح کی گھٹن سے باہر نکلنے کا سال ہوگا ، تحریک انصاف appeared first on JavedCh.Com.



from JavedCh.Com https://ift.tt/1mNk2OA

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.