Type Here to Get Search Results !

Little Hope

 Little Hope


ننھی امید

 ‏دمشق کا معروف و مشہور تاجر رات کےپچھلےپہر سڑکوں پر ٹہل رہا تھا،

موسم خوشگوار ہونےکے باوجود اسکا دم گھٹاجا رہاتھا

ڈاکٹروں کے مطابق اسکےپاس ہفتہ

دس دن سے زیادہ ٹائم نہیں تھا

دنیا کی ہر آسائش کےہوتےہوئے

بےبسی کا یہ عالم تھا کہ ٹائم سے پہلےہی سب کچھ ختم ہوتا محسوس ہو رہا تھا

ملک کےڈاکٹروں نے جواب دے دیا تھا

ایک ننھی سی امید تھی کہ امریکا میں علاج ہوسکتا ہے وہ بھی دم توڑگئی

جب وہاں کئی مہینے ٹیسٹ وغیرہ کروانے کے بعد سینئر ترین ڈاکٹر نے آخر کار ایک دن آکر نرمی سے سمجھایا کہ آپ کے پاس زیادہ ٹائم نہیں ہے لہذا میرا مشورہ ہے اور عقل مندی یہی ہوگی

کہ باقی کا قیمتی ٹائم آپ اپنے بیوی بچوں کےساتھ گزاریں

رات کےاس پہر بےخبری کے عالم میں نہ جانےکتنی دیر ٹہلتا رہا

اسکی سوچوں کا تسلسل تب ٹوٹا جب ٹہلتےٹہلتےوہ ایک تنگ سے

بےرونق پل پر پہنچ  چکاتھا

سڑک پار دوسری طرف سٹریٹ لائٹ

کےنیچےایک خاتون کھڑی کسی آدمی سےگفتگو کر رہی تھی

تیس سال کے لگ بھگ خاتون کا انداز منت سماجت والا تھا

جبکہ بندہ کوئی اوباش قسم کا تھا جو کہ اس کی بات نہیں مان رہا تھا ، اس کے چلنے کی رفتار خود بخود آہستہ ہوگئی ،

کانوں میں جب آواز پہنچنا شروع ہوئی تو خاتون کہہ رہی تھی

خدا کے لئیے مجھے اتنے پیسوں کی ضرورت ہے بچے بھوکے ہیں

میں تمہارےساتھ چلنےکیلئےتیار ہوں۔۔

جبکہ وہ اوباش قسم کا بندہ

خاتون کی( قیمت) آدھی سےبھی کم دینا چاہ رہاتھا

اور یہ کہ تمہاری اس سےبھی کم قیمت بنتی ھےبول رہا تھا

پھر وہ کندھےاچکاتا ہوا چل پڑا اور خاتون حسرت کی تصویر بنی کھڑی رہ گئی

وہ تھوڑا آگےجاکر مڑا اور خاتون کیطرف چل دیا

اسے نزدیک آتا دیکھکر خاتون چوکنی ہوگئی امید بھری نظروں سےقریب آتےکو دیکھنےلگی نزدیک پہنچنےسے پہلےخاتون آگےبڑھی اسکا انداز ایسا تھاکہ جیسے اپنے آپ سے زبردستی زبردستی کر رہی ہو۔

 

اس نےقریب پہنچ کر سلام کیا خاتون نےمصنوعی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا اور ٹٹولتی نظروں سے دیکھا

اور تھوڑا قریب ہوتےہوئےمعنی خیز انداز بناکر پوچھا کیا موڈ ہے۔۔۔؟

وہ پیچھےہٹا اور نرمی سےکہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے،

دراصل میں نےابھی گزرتے ہوئےتمہاری اس آدمی کیساتھ تھوڑی سی گفتگو سنی ھے

مجھے بتاؤ میری بہن تمہارا کیا مسئلہ ہے؟

اسطرح پوچھنا تھا کہ خاتون جو مضبوط دکھائی دینے

کوشش کر رہی تھی

یکدم روہانسی ہوکر بولی بھائی قسم ہےاس ذات کی جو ہماری گفتگو سن رہاھےمیں اس ٹائپ کی عورت نہیں ہوں

جو اسوقت گھر سےنکل کرسڑک پہ کسی کا انتظار کرے

مگر میں بہت مجبوری کےعالم میں اسوقت اس جگہ پہ ہوں،

اسےلگا کسی نےاسکا دل مٹھی میں لےلیا ہو

اس نےمزید نرمی سے کہا

دلوں کا حال تو اللہ جانتا ہی ہے بہن،

 مجھے بتاؤ کیا بات ہے۔۔؟

بولی میں ایک بیوہ عورت ہوں

میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں

شوہر کو فوت ہوئے سال ہونے کو ہے

 شروع میں تو پڑوسی رشتےدار کچھ مدد وغیرہ کر دیتے تھے

پھر آہستہ آہستہ سب نے ہاتھ کھینچ لیا ،

گھر میں راشن نام کی کوئی چیز نہیں ھے

کرائےدار کا صبر بھی ختم ہوگیا ہے

 اس نے کل شام تک کی آخری مہلت دی ہے

اگر کرایہ نہ دیا تو سامان سمیت گھر سے نکال دیگا

میرے پاس اب اور کوئی چارہ نہیں رہا

سوائے کہ اپنے آپ کو۔۔۔۔۔

یہ کہتے ہوئے اسکی آواز بیٹھ گئی

 اس نےبھی جلدی سےدوسری طرف مڑ کر بہانےسے اپنےآنسو صاف کیئے پھر مڑ کر

جلدی سے بولا

بس بس ٹھیک ہے بہن کوئی بات نہیں

 اور اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالےتو پتہ چلا کہ جیبوں میں جو رقم ہے وہ نہ ہونے کےبرابر ہے

کیونکہ جس عالم میں وہ نکلا تھا اسےتو ہوش ہی نہیں تھا

اس نےخاتون سےکہا فی الحال یہ رکھو

اور مجھے اپنا ایڈریس بتاؤ

فکر کرنےکی کوئی ضرورت نہیں ہے

اپنے گھر جاؤ

ان شاءاللہ سب ٹھیک ہو جائے گا،

 

خاتون بے یقینی کے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی

جیسے سوچ رہی ہو کہ اس پہ بھروسہ کرے کہ نا کرے

اس نے پھر سے یقین دھانی کرائی کہ تم جاؤ اور ایڈریس بتا دو بس،

اس نے آخر کار ایڈریس بتا دیا اور پھر ایک طرف کو چل پڑی

تھوڑی دیر تک

خاتون کو جاتا دیکھنے کے بعد وہ مڑا اور واپسی کی طرف تیزی سے قدم اٹھانے لگا

گھر پہنچ کر اس نے کافی مقدار میں نقدی لی

اور ڈرائیور کو بڑی وین نکالنے کو کہا

 پھر خود ڈرائیو کرتے ہوئے شہر کے چوبیس گھنٹے کھلے رہنے والے سٹور سے راشن کی بڑی مقدار وین میں بھری

اور خاتون کے بتائے

ہوئے ایڈریس پہ پہنچ کر سارا راشن اسکے گھر اتارا

باقی کی رقم خاتون کو دی اور کہا صبح کرائے دار سےوہ خود بات کرلےگا

اور کرائےکا معاملہ نمٹا دےگا

اور

انشاءاللہ ہر مہینے مخصوص رقم آپ تک پہنچا دی جائے گی ،

یہ کہ کر جلدی سے بناکچھ کہے سنے واپس مڑگیا ،

خاتون بت بنى

بے یقینی کے

عالم میں کھڑی آنسووں بھری نگاہوں سےدیکھتی رہ گئی

اور وہ وین سمیت نظروں سےاوجھل ہوگیا

اسکی کیفیت اب کافی بلکہ بہت مختلف تھی

اسکے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی

کچھ گھنٹوں پہلےجو اسکی حالت تھی وہ اب یکسر بدل گئی تھی

اب اسے ہفتہ دس دن گزارنےکی جو فکر تھی وہ تھوڑی کم ہوگئی تھی

ہفتہ دس دنوں کا خیال آتے ہی اس نے کاغذ قلم لے کر خاتون کا ایڈریس لکھ کر وصیت لکھی کہ

ہر ماہ باقاعدگی سے چار لوگوں کے معقول سے بڑھ کر خرچے کی رقم اس ایڈریس پہ بھجوائی جائے

اور کاغذ کو لفافے میں

میں بند کر کے تجوری میں رکھ دیا۔۔

اب اسے لگ رہا تھا کہ

اپنے آخری سفر کے لئیےوہ تیار ہے

یا تھوڑی بہت تیاری کرلی ہے۔۔۔

پھر ہفتہ گزر گیا۔۔۔

اور دس دن گزر گئے۔۔۔

پھر مزید دس اور پورے پندرہ دن گزر گئے۔۔۔

گھر والوں کے کہنے کے باوجود وہ ہسپتال نہیں گیا

اور پھر پورا ایک مہینہ گزر گیا اور اگلے

مہینے کی رقم بھی اس نے فورا بھجوا دی

پھر ایسے ایک ایک مہینہ کرتے پورا سال گزر گیا

اور وہ معمول کے مطابق رقم بھجواتا رہا ،

بھر پانچ سال پھر دس سال گزر گئے

 اور پھر پورے بیس سال گزر جانے کے بعد

ایک رات وہ معمول کے مطابق تہجد کے لئے اٹھا

وضو کرکے تہجد شروع کی

اور سجدے میں دعا

کرتے کرتے اس کی سانسیں ختم ہو گئیں

اس جہان فانی سےسجدےکی حالت میں رخصت ہوگیا

یہ سچا واقعہ یہاں ختم نہیں ہوتا اصل خلاصہ تو اب آنا ہے

گھر والےجب صبح اٹھے

تو اسکو سجدےکی حالت میں مردہ پایا

 افسوس کےساتھ گھر والوں کو اس بات کی خوشی سی بھی تھی کہ اچھی اور مبارک موت ہوئی ھے

خیر تکفین و تدفین اور دیگر انتظامات کے بعد

اولاد کا تجوری اور وصیت کھولنے کا وقت آیا

تو وہ بند لفافہ بھی نکل آیا

جو کم ازکم بیس سال پہلے کی تاریخ کا ان کے والد کے ہاتھ کا لکھا ہوا تھا

 اور اس کا مطلب تھا

اس لکھے گئے ایڈریس پہ بیس سال سے رقم دی جاتی رہی ہے

لفافہ پڑھنےکے بعد

انکو پتہ چلا کہ والد صاحب کو فوت ہوئے سات دن ہوگئے ہیں

جو کہ تکفین و تدفین اور رشتے دار لوگوں کے ملنے ملانے میں نکل گئے ہیں

اور وصیت کے مطابق رقم کی ادائیگی سات دن لیٹ ہوگئی ہے

رقم لے کر وہ لوگ اس ایڈریس پر پہنچے

تو دروازہ کھٹکھٹانے پر خاتون باہر آئی

جو کہ اب پچاس سے اوپر

کی ہو چکی تھی۔۔۔

سلام دعا کے بعد تاجر کے بڑے لڑکے نے خاتون سے مؤدب انداز میں کہا کہ ہم آپ کو والد صاحب کی طرف سے جو ماہانہ مخصوص رقم ہے وہ دینے آئیں ہیں

اور معذرت چاہتے ہیں کہ رقم کی ادائیگی سات دن لیٹ ہوگئی  وہ اصل میں۔۔۔

خاتون جلدی سے بولی ارے نہیں نہیں کوئی بات نہیں

آپ کے والد صاحب کے ہم پر بہت احسانات ہیں ،

آپ لوگ میری طرف سے والد صاحب کو بہت بہت شکریہ بولئیے گا

اور اور انہیں بتائیے گا کہ ہم ہمیشہ انہیں دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں

اور رکھیں گے ،

اور میری طرف سے آداب کے ساتھ انہیں بتائیے گا کہ اب انہیں رقم بھیجنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔

بیٹا

حیرانگی سے بولا

کیوں نہیں ہے ضرورت رقم کی۔۔۔؟

خاتون نےخوشی کےآنسووں میں ملی آواز میں جواب دیا:

اللہ تعالیٰ

کےفضل سےمہینہ پہلےمیرے بڑے بیٹےکی ملازمت لگی تھی

اور  سات دن پہلےہی بیٹےکو اسکی پہلی تنخواہ ملی ہے۔۔۔

خاتون روانی میں پتہ نہیں کیا بولےجا رہی تھی

جبکہ لڑکوں کے کانوں میں خاتون کیہی جملہ اٹک کر رہ گیا

"سات دن پہلےہی میرے بیٹےکو اسکی پہلی تنخواہ ملی ہے۔۔۔"

 

Post a Comment

0 Comments
* Please Don't Spam Here. All the Comments are Reviewed by Admin.